وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ يُّقۡتَلُ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ وَّلٰـكِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم (ان کی زندگی کا) شعور نہیں رکھتے

عشق (ع-ش-ق) میں “ش” شہادت ہی تو ہے گیارہویں کی شہادت اور بارہویں کی حاضری بھی کیا سعادت ہے نا، شہادت تو ازخود سعادت ہے اللہ نے شہادتیں شاید تہجد میں اس لیے رکھی ہیں کہ اس پہر روحانیت جگتی ہے چاہے زمیں پر ہو یا فلک پر تہجد میں بھی 4 حروف ہیں اور قبول میں بھی انہی 4 حروف سے معراج کے 5 حرف ملتے ہیں اور شہادت تو عشق پاک کی معراج ہے کتنا کامل عشق پاک ہے مرشد پاک کا جو اللہ پاک نے قبول کر کے مقبول کر دیا.

17 مئی 2022 کی رات کو میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں اور مرشد پاک نماز پڑھ رہے ہیں اور کسی نے انکے شانے پر پیچھے سے ضرب لگائی، انکے سارے کپڑے اور جائے نماز خون سے تر ہو گئی ” میں نے آنکھ کھلتے ہی مرشد پاک کو بتایا تو مسکرا کر کہا” ہو گا کچھ نہیں، رسول اللہ ﷺ حفاظت فرمائیں گے” اس قدر یقین کی منزل اور اطمینان تھا ان کے سوہنے چہرے پر اس لمحے مرشد پاک حالات اور اپنی زندگی کے آزمائشوں بھرے سفر میں جس کڑی ترین آزمائش سے گزار رہے تھے اس کی وجہ سے تھک چکے تو اور کچھ دن کے لیے بیرون ملک آرام کے لیے جانا چاہتے تھے انھیں معمول کی زندگی سے کچھ عرصے کی چھٹی چاہیے تھی تاکہ ذہن و قلب پر پڑے غم و اندوہ کے غبار اور زخموں کو سرکار دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں مدینہ پاک کی شفا بخشنے والی فضاؤں میں تسکین و شفا میں بدل سکیں، کیونکہ سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے پیارے کو مسجد نبوی سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گھر جو عطا کر رکھا تھا.

اسی سلسلے میں انھوں نے پاکستان سے جانے کا فیصلہ کیا مگر وہ ہمیشہ کے لیے نہیں جانا چاہتے تھے انکا بار بار یہ کہنا کہ وہ چھوڑ کر جا رہے ہیں انکے دل کا درد اور وقتی دکھ تھا جو وہ میڈیا چینلز کے مالکان کو اور بالخصوص پاکستان کو بتانا چاہتے تھے کہ کسی نے بھی ان کی حرمت کے لیے آواز بلند نہیں کی اسی سفر کے سلسلے میں انھیں کچھ کاغذات درکار تھے جسے لینے وہ 4 جون ہفتے کے روز کراچی صبح 8 بجے پہنچے. مرشد پاک کا رکنے کا قطعی ارادہ نہیں تھا کیونکہ انھیں پہلے سے آگاہ کیا گیا تھا کہ کراچی فل وقت  انکے لیے محفوظ نہیں ہے

مگر وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ تجوری کا تالا خراب ہوگیا ہے اور اسے ٹھیک کروانے میں وقت لگے گا کیونکہ ضروری کاغذات اسی میں تھے جن کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑا ایک بار پہلے یہ بھی سوچا گیا کہ کیوں نا تجوری اسلام آباد منگوا لی جائے مگر نجانے کیوں انھیں اجل اتنی بے قراری سے کراچی بلا رہی تھی کہ وہ جمعے کو گھر سے نکل گئے سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا، تجوری ٹھیک ہوگئی اور انھیں جمعرات کو صبح ہر صورت اسلام آباد واپس پہنچنا تھا بدھ رات 8 بجے کے قریب میری آخری بات اس طرح ہوئی کہ مرشد پاک حج کی ٹرانسمیشن حجاز مقدس سے لائیو کرنا چاہتے تھے اور اسی پر ہماری بات ہو رہی تھی کہ اچانک وٹس ایپ کال کٹ گئی میں بار بار کوشش کرتی رہی مگر نہ تو میسج انھیں موصول ہو رہا تھا اور نہ ہی کال انکا فون بند ہو گیا پھر وہ وحشت بھری رات آئی جس میں جذبات احساسات سے بھرپور شیر کو کتوں اور خنزیروں نے نوچ ڈالا اور قتل کر دیا انکے کردار کی قاتل پہلی اہلیہ، عزت و وقار کی قاتل دوسری اہلیہ اور حرمت کی قاتل تیسری اہلیہ اور جو بچ گیا اس کے قاتل نامعلوم افراد ہیں، ایک انسان کو کتنے حصوں میں ناحق قتل کیا گیا

ساری رات شدید بے چینی میں گزر رہی تھی جبکہ ان کا فون بند ہو جانا کوئی خاص بات نہیں تھی مجھے لگا بیٹری یا سگنل کا مسئلہ ہوگا میں نے اسی بے چینی میں تہجد کی نماز ادا کی اور آنکھ لگ گئی کہ کیا دیکھتی ہوں “جنگلی جانور مرشد پاک کے اردگرد جمع ہیں اور وہ گریہ کر رہے ہیں اور مرشد پاک کہہ رہے ہیں نتاشا انھیں ہٹاؤ یہاں سے، مجھے شدید تکلیف ہو رہی ہے اور میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور بھاگتے جا رہی ہوں جنگل میں اور وہ سب جانور ہمارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں ” میری آنکھ کھلی تو حالت بہت غیر تھی اور دل کی پریشانی اور گھبراہٹ اس یقین میں بدل چکی تھی کہ مرشد پاک کسی بڑی مشکل میں ہیں رات کے قریباً 1:30 بج رہے تھے، تھوڑے حواس قائم ہوئے تو میں نے ملازمین سمیت مرشد پاک کو بہت کالز کیں مگر کسی نے جواب نہیں دیا

مرشد پاک کا فون تو بند جا رہا تھا مگر ڈرائیور ممتاز اور ملازم جاوید کال attend نہیں کر رہے تھے. عجیب خوف و وحشت سے بھری رات تھی اج بھی اس رات کی خاموشی مجھ میں خوف بن کر گونج رہی ہے اسی پریشانی میں سورج ایک عشق رسول ﷺ کی لازوال داستان کا ظاہری سفر حیات مکمل ہونے پر درد کی سرخی لیے نمودار ہوا اور صبح ہو گئی جو میرے مرشد پاک پر ہوئے ظلم کی گواہ تھی میں مناجات میں مصروف تھی اور انکی خیر و عافیت کی دعائیں کر رہی تھی کہ ڈرائیور ممتاز کی 9 بجے کال آئی اور کہا “بی بی سب خیریت؟ آپ کی کالز آئی ہوئی ہیں میں اٹھا نہیں سکا کیونکہ ہم سب سو رہے تھے ابھی کچھ دیر میں اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے” میں نے مرشد پاک کا پوچھا کہ تو آگے سے جواب آیا وہ سو رہے ہیں رات 12 بجے تک یہیں ہمارے پاس صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے پھر کوئی دوست آیا اس کے ساتھ کمرے میں چلے گئے میں نے کہا ممتاز بھائی مرشد پاک اس وقت کبھی نہیں سوتے انھیں جلدی جا کر دیکھیں اور مجھے بتائیں وہ خیریت سے ہیں؟ ممتاز نے کہا جی میں بتاتا ہوں. پھر میں دوبارہ انتظار کرنے لگی مگر نہ تو ممتاز نے کال کی اور نہ ہی میری کال کسی نے اٹھائی اور 11 بجے ٹی وی پر انکے انتقال کی خبر آگئی جسے سنتے ہی بے ساختہ میرے منہ سے یہی جملہ نکلا “مرشد پاک کو قتل کر دیا گیا” وہ رات بہت اذیت بھری تھی اور صبح ساری زندگی کے رنگ ختم کر گئی اتنی بھیانک رات اور اس قدر ہولناک صبح کبھی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی

10 ذی القعد جمعرات کو انھیں بےدردی سے وقت تہجد انھی کے گھر میں ناحق قتل کر دیا گیا ملازم جاوید کا ہسپتال سے پہلا بیان آیا؛ کہ انکے کمرے سے رات چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں ہمیں لگا صاحب فون پر کسی سے غصہ ہو رہے ہیں” جبکہ وہ غصے میں بالکل خاموش ہوجایا کرتے تھے اور انکی آواز صرف اس وقت بلند ہوتی تھی جب وہ شدید کرب میں ہوتے تھے اور پھر انکا ایکسرے آیا، جس میں جسم یعنی کندھے اور کلائی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی خواب میں بھی تو ضرب کندھے پر ہی لگائی گئی تھی

اور اسی طرح کے مختلف شواہد جو کہ بعد ازاں ڈلیٹ کروا دیے گئے اور ہر ثبوت مٹا دیا گیا جو اس ناحق قتل کی داستان سنا رہا تھا اور ہر طرف یہ عام کر دیا گیا کہ ڈپریشن سے چل بسے، شدت غم کو برداشت نہ کر سکے ” جنھوں نے 25 مئی کو اپنا وٹس ایپ سٹیٹس یہ لگایا تجھ سے راضی، تیری رضا پہ راضی، تُو ہو جا راضی اللہ عَزَّوَجَل” لوگ کہتے ہیں وہ ڈپریشن میں تھے؟ بالکل بھی نہیں ان کے نام نہاد اپنے جو انکی حیات میں انھیں عزت محبت مان نہ دے سکے افسوس صد افسوس انھوں نے انکی موت کو بھی عزت نہ دی اور ناحق قتل کو ڈپریشن سے مر جانے والا ایک عام کمزور انسان ثابت کر دیا اور یہ کام کسی اور نے نہیں انکی پہلی اہلیہ نے کیا جو 2 سال سے ان سے نہ صرف قطع تعلق تھی بلکہ مرشد پاک کی اولاد کی بھی ایسی تربیت بھی کی کہ وہ بھی ان سے قطع تعلق ہو چکے تھے اور بیٹی تو یہاں تک کہنے میں عار محسوس نہیں کرتی تھی کہ”آپ کا نام میرے نام کے ساتھ باعث شرمندگی ہے” انھیں لاوراث سمجھ کر انکے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک کرنے والی پہلی اہلیہ (جس نے خود طلاق لے لی 2020 میں اور مرشد پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے طلاق دی، اس جھوٹ پر بھی عورت کی حرمت کی خاطر مرشد پاک خاموش رہے) اور نام نہاد اولاد تھی

میرے مرشد پاک توكل علي الله کی ایسی منزل پر تھے کہ برہنہ کیے جانے پر بھی زبان پر رب کی رضاؤں اور شکر کے کلمات تھے کہ میرے اللہ میں تیرا غلام ہوں اور تو میرا مالک اگر تو ایسے ہی راضی ہے تو میں بھی راضی ہوں

انھیں نسبتوں سے شدید عشق تھا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر بھی ضرب وقت فجر لگی تو یہ تو انھی کے نوکر ہیں پھر جنھیں

مولا علی کی طرح نماز سے آزمایا گیا

امام حسن علیہ السلام کی طرح عورت سے

امام حسین علیہ السلام کی طرح اولاد اور مال کی کثرت سے

اور رسول پاک ﷺ کی طرح دل سے آزمایا گیا کہ مقام کے باوجود کرب کی انتہا کی گئی

کس قدر مکمل محبت کی ہے مرشد پاک نے کہ اللہ کے ہاں مقبول بھی ہے اور قبول بھی

جذبات و احساسات کی دہشت گردی کے شکار بہت ہی معتبر اپنی مسکراہٹ سے زندگی بھر دینے والی شخصیت کا سفر آخر تھا ہاں دہشت گردی تو ہوئی انکے ساتھ؛ اخلاقیات کی، انسانی رویوں کی، نام نہاد رشتوں کی، جذبات کی، احساسات کی ان کو انکی نیک، با حیا اور پاکیزہ سیرت کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی انکا کوئی گھر نہیں تھا تو آقا کریم ﷺ نے انھیں اپنی آلِ پاک کے قدموں میں گھر اور امان دے دیا

ظلم جبر اور ستم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوئی ابھی تو جسدِ خاکی کی پامالی باقی ہے ایسے ہی کیسے پنجتن پاک کا ماننے والا جس کی رگ رگ میں پنجتن پاک کی غلامی کی خوشبو اور گلے میں انکا پٹہ تھا سپرد خاک کر دیا جاتا

ہسپتال سے انکے وصال کی تصدیق کے بعد انھیں چھیپا کے سرد خانے میں منتقل کر دیا گیا اور نام نہاد جعلی وارثین (پہلی اہلیہ /مطلقہ اور بیٹی) انھیں چھیپا سرد خانے میں چھوڑ کر گھر چلے گئے میں لاہور سے پہلی فلائیٹ سے قریباً شام 6 بجے کے قریب پہنچی چھیپا سرد خانے کے باہر عجیب منظر تھا؛ ہر آنکھ اشک بار اور ہر شخص اپنی علمی و روحانی یتیمی پر رو رہا تھا میں مرشد پاک کے علاوہ وہاں کسی کو بھی نہیں جانتی تھی، میں رو رہی تھی اور بس یہی کہتے جا رہی تھی مرشد پاک میں آگئی مگر آج مجھے “مسکراتے چہرے کے ساتھ پرجوش انداز میں” تم آگئیں ” آواز نہیں سنائی دے رہی تھی اسی طرح چھیپا سرد خانے کے باہر رات ہو گئی رات قریباً 10 بجے کے قریب ایک امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام اور انھی سے نسبت رکھنے والے ایک عاشق رسول نے کہا بہن تم کون ہو؟

میں نے بتایا میں مرید ہوں اور سات سال سے بیعت ہوں، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین میرے مرشد پاک ہیں انھوں نے کہا آؤ پھر آخری بار مل لو میں بڑے بوجھل قدموں سے آگے بڑھی اور مرشد پاک پاس پہنچی ان کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا، زیرِ لب بھینی سی مسکراہٹ، چہرہ سرخی مائل، اور شفتان نیلے سیاہ رنگ کے جبکہ انکے شفتان ہمیشہ سرخی مائل رہتے تھے، ہر وقت درود جو جاری رہتا تھا ان پر میں نے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا اللہ پاک اور آقا کریم ﷺ کے سپرد کیا آپ کو جلد ملاقات ہوگی میں نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا تو وہ ایسے تھا جیسے کچلا ہوتا ہے، انکے پاس سے وہی مدینہ پاک کی خوشبو اٹھ رہی تھی میں نے قدموں کو بؤسا دیا ،درود پاک پڑھا اور باہر آگئی یہ کوئی 3 منٹ کی آخری ظاہری ملاقات تھی وہ صاحب بھی میرے ساتھ رو رہے تھے اور کہا اتنی عقیدت میں نے ان کے لیے کسی میں نہیں دیکھی میں نے کہا “میرے مرشد ” تو سر پر ہاتھ رکھ کر کہتے صبر کرو اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے

مرشد پاک، اپنا گھر ہونے کے باوجود جس میں آج بھی وہ مطلقہ اور بچے اپنا سر چھپائے ہوئے ہیں، اس سرد خانے میں چھوڑ گئے اور 27 گھنٹے تک مرشد وہیں رہے،فرعونیت سے بھری عورت نے حکم سادر کیا کہ کسی کو نہ دیکھنے دیا جائے اور چھیپا کے اہلکار غسل دے کر کفن پہنا کر عبد اللہ شاہ غازی علیہ رحمہ کے احاطے میں لے آئیں پولیس کی ابتدائی تحقیقات کرنے والی investigation team اور رینجرز باضد تھے کہ پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے کیونکہ انھیں بھی شک تھا کہ شاید قتل ہوا ہے مگر جعلی لواحقین نے کہا ہم نہیں چاہتے فرعونیت سے بھری عورت اور investigation team میں سخت کلامی ہوئی اور اس نے ایک بار پھر اپنا لہجہ بدلا اور کہا وہ کورٹ سے لکھوا لاتی ہے اور وہ 30 منٹ میں جاکر کورٹ سے تدفین کے order لے آئی کیونکہ وہ کہتی تھی

“I want to close this chapter”

مرشد پاک باب نہیں ایک حسین ترین کتاب ہیں جس کا ہر ورق عشق رسول کے وضو اور عقیدت کے ہونٹوں سے چوم چوم کر پڑھنے والا ہے

میں نے اور انکے بہت سے رفقا، دوست احباب نے اس وقت جو بے بسی محسوس کی اسے کبھی بھی قلم بند نہیں کیا جاسکتا لواحقین؟ کون ہوتے ہیں لواحقین؟

مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قول کا مفہوم ہے احساس کے رشتے خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ معتبر ہوتے ہیں.

مگر پاکستان کے کاغذی قانون میں اس وقت وہ مطلقہ اور اسکی بیٹی ہی لواحقین تھے

میرے سوہنے مہکتے مرشد پاک کے جسد خاکی کو چھیپا اہلکاروں نے غسل دیا اور سٹریچر پر رکھ کر عبد اللہ شاہ غازی علیہ رحمہ لے گئے وہ لاوارث نہیں تھے؛ دیکھو وہ آج اپنے وارثین (اولاد نبی ﷺ) کے پاس آرام فرما ہیں مگر انھیں لاوارثوں کی طرح سٹریچر پر عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمہ لے کر آیا گیا خاکِ مدنی کو چارپائی اور پھولوں کی چادر تک نہیں دی گئی اور نہ ہی کاندھا دیا گیا یہ لوگ کیسے اتنی بڑی شہادت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا سکتے تھے؟

وہ تو خود بنا خوشبوؤں کے مہکتے تھے کیسے پھول ڈالے جاتے جس کے لہو سے شہادت کی خوشبو عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمہ کے در کی منور فضاؤں کو معطر کر رہی تھی اسی چھیپا کے سٹریچر پر ایک باحیات ذی نفس کا “زندہ” لوگوں نے نماز جنازہ ادا کیا اس میں بھی زیادتی کی گئی عصر کی اذان سنتے ہی سبھی لوگ قریباً باجماعت نماز عصر ادا کرنے گئے جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں سے صرف مرشد پاک کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے، اور نماز جنازہ میں شرکت اپنی سعادت سمجھے ہوئے تھے، انکے پیچھے سے چند صفوں کی نماز جنازہ کھڑی کر دی گئی اور اسی سٹریچر پر احاطے میں لایا گیا اور لحد میں اتار دیا گیا غلام کی اپنے سیدی مرشدی جان اور ایمان ﷺ سے ملاقات کا وقت ہو چکا تھا وہ شہادت کا لباس پہنے، عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگوں سے سجا، پنجتن کی غلامی سے معطر عجیب شاہکار تھے جنھیں لحد میں اتارا جا رہا تھا وقت عصر میں بھی کلمہ شہادت پڑھنے والوں میں تھی؛ کیا نصیب لکھا ہے اللہ نے میرا بھی خود کو لحد میں کوئی ایسے اتارتا ہوگا بھلا! شدید ترین گرمی میں بھی ہوائیں چل رہی تھیں چھوٹے چھوٹے بادلوں کی ٹکریاں آسمان پر بکھری ہوئی تھیں؛ ہوا کا ہر جھونکا سماعتوں میں عاشق رسول ﷺ کو سلام عقیدت پیش کرتا سنائی دے رہا تھا

سوچتی ہوں اس چہرے پر مٹی کیسے ڈالی گئی جس کی پیشانی کو خواب میں آقا کریم ﷺ نے اور جس کی پیشانی نے نعلین پاک کو چوما تھا مگر انھیں اہل بیت اطہار کے گھر کے سپرد کر دیا گیا

جعلی لواحقین تو فوراً اپنا کام کر کے نکل گئے مگر کافی دیر تک لوگ آتے جاتے اور فاتحہ پڑھتے رہے میں وہیں باہر کھڑی رو رہی تھی کہ مغرب کی اذان ہو گئی اور مجھے اچانک ابصار احمد بھائی نے پہچان کر آواز دی اور کہا آؤ فاتحہ پڑھ لو وہ وقت بھی عجیب تھا غلامِ رسول ﷺ کی ملاقات کا وقت تھا اور یہ غلام اپنے مرشد کو دردو تاج ہدیہ کر رہی تھی میں نے مرقدِ پرنور پر قدمین پاک کی طرف ہاتھ رکھ کر اتنا کہا مرشد پاک جلدی بلا لیجیے گا بس اور ساتھ رہیے گا ہمیشہ سفر بہت طویل کر گئے آپ میرا اور اسی خاک پاک کو اپنے چہرے پر سجا کر احاطے سے باہر نکل آئی

(مریدِ محبت مصطفیٰ)